ایرانی جنرل سلیمانی کا قتل کیسے ممکن ہوا؟ عالیجاہ مغنیر

ENhVh1pWsAA9rPJ

@ejmalrai

جنرل قاسم سلیمانی اور اُن کے ساتھی امریکہ کے میزائیل فائر کرنے کے حُکم سے مارے نہیں گئے – یہ درست ہے کہ حُکم امریکی کمانڈ سے ضرور آیا تھا لیکن امریکی صدر نے یہ فیصلہ جس وجہ سے لیا وہ وجہ ‘مزاحمت کے محور’ کی کمزوری ہے- مزاحمت کے محور نے کارکردگی کی جس سطح پر ہونا تھا یہ اُس سے بالکل نیچے پسپا ہوچکا ہے جس سطح پر اسے پہنچانے کا عزم ایران نے کررکھا تھا

میجر جنرل سلیمانی کے ایک انتہائی قریبی ساتھی ہیں، جن سے سلیمانی نے دمشق سے بغداد جانے والے طیارے میں سوار ہونے سے پہلے گھنٹوں بات کی، نے مجھے بتایا: ” معزز آدمی مرگیا-فلسطین نے سب سے زیادہ حاج قاسم سلیمانی کو کھویا ہے- وہ مزاحمت کے محور کا بادشاہ تھا اور اُس کا قائد تھا- اُس کو قتل کردیا گیا اور وہ اپنی زندگی میں یہی شہادت ہی تو چاہتا تھا- تاہم مزاحمت کا محور زندہ رہے گا اور مرے گا نہیں – اس میں کوئی شک نہیں کہ مزاحمت کے محور اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے اپنے لیا درست راستا تلاش کرنا چاہیے- یہ وہ بات تھی جس کا قاسم سلیمانی شکوہ کررہے تھے اور اپنی زندگی کے آخری گھنٹوں میں وہ کام کرنے کی منصوبہ بندی اور اُس کی حکمت عملی تیار کرنے کی بات کررہے تھے

امریکہ نے میجر جنرل سلیمانی کو قتل کرکے ایران کے مرکز فخر پر حملہ کیا لیکن مزاحمت کے محور نے اُن کو اس سے پہلے ہی مار ڈالا تھا یہ ایسے ہوا

جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے لبنانی حزب اللہ کے ڈپٹی ہیڈ حاج اماد مغنیاح کو دمشق میں قتل کروایا (جس کے سربراہ حسن نصر اللہ ہیں) تو تب سے ابتک حزب اللہ اس کا بدلہ لے سکی

جب ٹرمپ نے نیتن یاھو کو یروشلم ‘اسرائیل کے دارالحکومت’ کے طور پر بخش دیا مزاحمت کا محور سوائے ٹیلیویژن سمپوزیا اور کانفرنس کرکے اس فیصلے کو زبانی کلامی مسترد کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکا

جب ٹرمپ نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کو دے ڈالیں تب بھی مزاحمت کے محور نے کچھ نہ کیا تو ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی ٹیم سمجھ گئی کہ اُن کو کسی موثر جواب کا سامنا نہیں کرنا پڑا- مزاحمت کے محور کے ایکشن نہ لینے نے ٹرمپ جو چاہتا ہے وہ کرنے پر شیر ہوگیا

اور جب اسرائیل نے سینکڑوں شامی اور ایرانی تھانے شام میں نشانہ بنائے تب بھی ‘مزاحمت کے محور’ نے اپنی طرف سے جواب نہ دینے کی کمی کی سفائی روایتی فقرے سے دی : “ہم اپنے دشمن کے دیے گئے وقت کے مطابق اُن سے کھلی جنگ میں ملوث نہین ہوسکتے-” جیسے مزاحمت کے محور میں ایک سینئر اہلکار نے مجھے بتایا

عراق میں اپنی موت سے کچھ دیر پہلے قاسم سلیمانی مزاحمت کے محور میں عراقی صفوں کی کمی کی شکایت کررہے تھے- کیسے البناء الائنس جیسے الحکمہ /عمار الحاکم اور حیدر العباد جو پہلے ایران کے قریب تھے امریکی طرف چلے گئے ہیں

عراق بارے میجر جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ سے برداشت اور تحمل سے رہے اور کبھی انہوں نے اپنی برداشت کو نہیں کھویا تھیں – وہ اپنے اتحادیوں اور جو امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کررہے تھے حالانکہ امریکی کیمپ میں جانے والے عراقی اُن سے متفق نہ تھے- وہ اُن کو گلے سے لگاتے جو دوران اجلاس اُن پر چلاتے تاکہ تناؤ کم ہوسکے اور اجلاس بے کار نہ جائے- اجلاس کے دوران کوئی آواز اٹھتی تو یہ سلیمانی تھے جو باقیوں کو شانت رہ کر سُننے کو کہتے اور باقی شانت ہوجاتے

حاج قاسم اُن لوگوں میں بھی نئے وزیراعظم کے نام پر اتفاق کروانے میں ناکام ہوگئے تھے جو خود کو ایک ہی اتحاد کا حصہ مانتے تھے- انہوں نے عراقی رہنماؤں کو کہا وہ نام چُنیں اور وہ اُ ن ناموں کی قبولیت بارے مراجع، سیاسی رہنماؤں اور جو احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر ہیں سے پوچھیں- اور یہ بھی دیکھیں کہیں چُنے گئے نام امریکہ کو بھڑکانے والے تو نہیں- اس سے قطع نطر ایران اور امریکہ میں دشمنی تھی سلیمانی نے ایسی شخصیت کا چَناو کرنے کی حوصلہ افزائی کی جس کا امریکہ بائیکاٹ نہ کرے-سلیمانی کو یقین تھا کہ امریکہ عراق کو نقصان پہنچاسکتا ہے اور عراق میں استحکام کے لیے وہ امریکہ سے عراق کے بہتر تعلقات کی اہمیت سمجھتے تھے

سلیمانی مزاحمت کے محور کے عراقی شیعہ کے درمیان تقسیم دیکھ کر شاک لگا تھا اور وہ مزاحمت کے محور کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے ایک نئے وژن کی ضرورت کے قائل تھے- اپنی موت سے چند گھنٹوں پہلے تک ایک ہی کیمپ کے عراقیوں کے درمیان اختلاف بارے فکرمند تھے

جب عراقی گلیاں حکومت کے خلاف مظاہروں سے بھرنا شروع ہوئیں تو امریکی تسلط کو رد کرنے والی صف بھی انتشار کا شکار ہوگئی کیونکہ یہ اس اتھارٹی کا حصہ تھا جس نے راج کیا اور عراق کو چلایا تھا- مسئلے کو زیادہ بدتر بنانے کے لیے مقتدا الصدر نے اپنے تیروں کا رخ حکومت کے اپنے شراکت داروں کی طرف کردیا-جیسے گلیوں اور بازاروں کا احتجاج اُسے تو متاثر نہیں کرے گا- ایسا سیاست دان جس کے پاس بڑی تعداد میں عراقی ڈپٹی، منسٹرز اور اسٹیٹ آفیشل ہین جنھوں نے دس سال سے زیادہ حکومت میں شراکت کی ہے

میجر جنرل سلیمانی نے مقتدا الصدر کے موقف پر اُن کی فہمائش کی جس نے عراقی صفوں میں انتشار پیدا کیا کیونکہ مقتدا صدر نے کبھی متبادل حل پیش نہیں کیا یا عملی منصوبے نہیں دیے سوائے انتشار کے- مقتدا کے اپنے بندے ہیں احتجاج میں شامل ہیں

جب یو ایس سیکرٹری برائے دفاع مارک ایسپر نے عراقی وزیراعظم عادل عبد المہدی کو 28 دسمبر کو بتایا کہ امریکہ کا ارادہ عراق کے اندر عراقی سیکورٹی اہداف کو نشانہ بنانے کا ہے بشمول پی ایم یو تو سلیمانی عبدالمہدی کی جانب سے ایسپر کی موثر مخالفت میں ناکامی. پر بہت مایوس تھے

عبدالمہدی نے ایسپر کو محض اتنا کہا تھا کہ امریکہ کا ممکنہ ایکشن خطرناک ہوگا- سلیمانی کو معلوم تھا کہ امریکی کبھی بھی عراقی سیکورٹی اھداف کو نشانہ بنانے کی جرات نہ کرتا اگر عادل ابو مہدی نے امریکی تجویز کی مخالفت کی ہوتی – اہدافی ایریا وہ مشترکہ ایرانی – عراقی آپریشن کے مرکز تھے جن کا کام داعش کی حرکات پر نظر رکھنا، اُن کو عراق و شام کی سرحدوں پر کنٹرول کرنے کا کام کرے تھے َ- اگر عراقی وزیراعظم نے امریکہ کو جوابی کاروائی کی دھمکی دی ہوتی اگر امریکی کاروائی سے عراقی فورس پر بم برستے اور وہ ہلاک ہوتے- آخر کو امریکہ کے پاس عراق میں عراقی حکومت کی رضامندی کے بغیر کیسے کسی چیز پر حملہ کرسکتا تھا

امریکہ کا یہ فیصلہ وہ لمحہ تھا جب عراق نے اپنی خودمختاری کھودی اور امریکہ نے ملک کا کنٹرول سنبھالا

امریکہ کا موثر کنٹرول دوسری وجہ ہے جس کے بعد صدر امریکہ نے میجر سلیمانی کے قتل کا گرین سگنل دے ڈالا- عراقی محاز نے اپنی کمزوری دکھائی تو امریکیوں کے غرور اور غیرقانونی اقدامات کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت رکھنے والے قائد کی ضرورت ہے

ایران نے عراق کو کبھی کنٹرول نہیں کیا جیسا کہ عمومی طور پر اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے یا وہ قیاس کرتے ہیں – سالوں تک امریکہ نے عراقی سیاسی لیڈر شپ کے جوریڈورز میں اپنے مفادات کے لیے کام کیا ہے- اُس کے زیادہ سرگرم و فعال ایجنٹ امریکی صدارتی ایلچی بریت مکگرگ تھے- جو اچھے سے عراقی لیڈروں کیلے کوریڈور میں نقل و حمل میں حائل مشکلات کو سمجھ گیے تھے-اور یہ ادراک عادل عبدالمہدی، بہرام صالح کی تعیناتی سے پہلے ہوگئی تھی

میجر جنرل سلیمانی اور میکگرک نے ان مشکلات بارے باتیں شئیر کیں تھیں – دونوں عراقی سیاسی جوار بھاٹے کی فطرت سے اچھے سے آگاہ تھے

سلیمانی نے امریکی اڈوں یا یو ایس سفارت خانے پر حملوں کا حکم نہیں دیا تھا-اگر ان کو درست میزائیل سے تباہ کرنا اور سارے سفارت خانے کو اس کے مقام سے ہٹانا بنا کسی نتایج و عواقب کے اُس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ زرا نہ ہچکچاتا

لیکن عراقیوں کی اپنی رائے، طریقہ، طریقہ واردات، اہداف کا چُناو اور میزائیل کا استعمال کا اپنا طریقہ ہیں- انہون نے کبھی سلیما نی پر ایسے فیصلے لینے پر انحصار نہیں کیا

عراقی امور میں ایرانیوں کی مداخلت نجف اشرف کے مراجع نے کبھی پسند نہیں کی یہاں تک کہ ایک موقعہ مراجع نے کھلا خط لکھ کر مالکی کو نامنظور کردٕیا

اوپر جو کچھ لکھا گیا وہ اس مرحلے سے جڑا ہوا ہے جو 2011ء میں صدر اوبامہ کی صدارت کے دور میں عراق سے امریکی افواج کی رخصتی کے بعد آیا۔ اس سے پہلے ابو مہدی المہندس عراق اور ایران کے درمیان رابطے کا زریعہ تھا: اس کے پاس فیصلے کرنے ،وژن دینے ،کئی ایک گروپوں کو سپورٹ فراہم کرنے اور موثر طور پر سلیمانی کی نمائندگی کا اختیار تھا، جو جزئیات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ یہ عراقی گروپ ایران میں سلیمانی سے ملا کرتے تھے۔ سلیمانی امریکی فوج کی بھاری تعداد کی موجودگی میں عراق کا سفر شاذ و نادر کیا کرت تھے

سلیمانی اگرچہ ‘مزاحمت کے محور’ کے قائد تھے اور ان کو بعض اوقات ان کے نام سلیمان کی وجہ سے بادشاہ بھی کہا جاتا تھا لیکن انہوں نے کبھی اپنی پالیسی کو مسلط نہیں کیا تھا بلکہ اس میں اپنا حصّہ ڈالنے اور تغیر و تبدیلی کا موقعہ وہ محور کے تمام لیڈروں کے لیے بلا امتیاز رکھا کرتے تھے- اسی لیے ان کو محمور اور سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے درمیان واسطہ سمجھا جاتا تھا- سلیمانی خامنہ ای سے کسی بھی وقت رابطہ کرسکتے تھے اور بلاواسطہ رابطہ کرسکتے تھے – قائد انقلاب سلیمانی کو اپنا بیٹا خیال کرتے تھے

زرایع کے مطابق ، شام میں، سلیمانی کبھی بھی کسی ٹرک میں یا عام کار میں سفر کرنے سے نہیں ہچکچائے ، پہلےہیلی کاپٹر استعمال کرتے یا ٹرانسپورٹ یا کارگو پلین کو استعمال کرتے جب ضرورت پڑتی- انھوں نے کبھی سیکورٹی احتیاط کو حساسیت ی حد تک مد نظر نہیں رکھا بلکہ آزادانہ اپنا فون استعمال کرتے جسے وہ ہر وقت ساتھ رہنے والا جاسوس کہا کرتے تھے- کیونکہ ان کا یقین تھا جب وقت اجل آیا تو کوئی اسے روک نہیں سکے گا- وہ تو شہادت کو گلے لگانے کو پھرتے تھے کیونکہ وہ پہلے ہی بہت جی لیے تھے۔

کیا ‘مزاحمت کے لیڈر اس کے منتظم اور اسے چلا رہے تھے؟

سید علی خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کو کہا،” تم عرب ہو اور عرب تمہیں زیادہ قبول کرتے ہیں بنسبت ایرکن کو قبول کرنے کے” سید نصراللہ لبنان، شام اور یمن میں محمو مزاحمت کے منتظم و رہنماء ہونے کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی اہم کردار ادا کرنے پر متعین تھے- حاج سلیمانی مزاحمت کے محور اور ایران کے درمیان واسطہ اور فنانشل و لاجسٹک افسر تھے۔ میرے زریعے کے مطابق،” وہ تمام مناب کے اہلکاروں اور رہنماؤں کے دوست تھے۔” وہ منکسر مزاج اور اپنے ساتھ معاملہ کرنے والے کا خیال رکھنے والے تھے

محور مزاحمت نے بالواسطہ قاسم سلیمانی کے قتل کو ہونے دیا- اگر اسرائیل اور امریکہ یہ جانتے ہوتے کہ حسن نصراللہ کا ٹھکانہ کہاں ہے تو وہ ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ان کو قتل کرڈالتے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کو خبرہو: ردعمل محض جھنڈے جلانے ، کانفرنس کرنے اور سفارتخانے کے سامنے کھڑے ہونے تک ہی محدود رہے گا- ایسا ردعمل تو ٹرمپ کو روک نہیں سکتا تھا جو دوبارہ منتخب ہونا چاہتا اور ایسا لڑا نظر آنا چاہتا ہے جو لڑنا اور مارنا پسند کرتا ہے

ایران نے ‘مزاحمت کے محور’ کی تعمیر میں چالیس سال سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ بے کار بیٹھ کر اپنے محور کے لیڈروں کا قتل ہوتے نہیں دیکھ سکتی- کیا امریکہ سے عراق کا نکل جانا اور سلامتی کونسل کی مذمت مناسب قیمت ہوگی؟ کیا اسے خاص عراقی سیاسی لیڈروں کی جیت کے لیے استعمال کیا جائے گا؟

محور مزاحمت کے لیے اس کے قائد کا قتل بہت بڑے چیلنج کو پیش کرتا ہے- تمام اطرافع دوست اور دشمن سب اس کے ردعمل کا انتظار کررہے ہیں۔

(مترجم: عامر حسینی)

Copyright © https://ejmagnier.com  2019