نیا مشرق وسطی کا جنم ہونے کو ہے

EN1X3fYX0AE1NE6Elijah J. Magnier: @ejmalrai

ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکہ مڈل ایسٹ سے چلا جائے گا- لیکن یہ بات درست ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے مڈل ایسٹ میں امریکی اثر کو بہت کم کردیا ہے۔ اور یہ کام امریکی صدر ٹرمپ کی بالواسطہ مد کے بغیر ہونے والا نہیں تھا۔

ٹرمپ جو بھی کررہا ہے اس نے امریکی تسلط کو دنیا بھر میں کمتر بنانے اور اسے نچلے درجے پر لانا ممکن بنا ڈالا ہے- اس بہت بڑے کام کو سرانجام دینے کے لیے اسے کسی کی مدد تو درکار نہیں تھی لیکن خارجہ پالیسی کو بدتر بنانے اور قومی سلامتی کے امور کو بگاڑنے کے فن میں وہ اور اس کے مشیر و اراکین کابینہ ایک جیسے ہیں- اس طرح کی بری مشاورت کے ساتھ دنیا بھر سے امریکی تعلقات خاص طور پر مڈل ایسٹ میں ایسے چلائے جارہے ہیں جیسے کوئی بزنس مین نزاکت اور سفارتی مہارتوں کی کمی کے ساتھ مذاکرات اور ثالثی کرنے نکل پڑے۔

جب کبھی ایران کو دنیا میں اپنا تاثر بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے تو ٹرمپ فوری اس کی مدد کو دوڑ پڑتے ہیں-خاص طور پر یہ مدد ‘محور مزاحمت’کے درمیان اس کا تاثر بہتر بناتی ہے۔ روس اور چین کے نزدیک ایران کا مقام اور بڑھ جاتا ہے- یہ دونوں ممالک ایران سے اپنے تعلقات مزید بہتر کریں گے جس نے موثر طریقے سے اور کھلے عام امریکہ جیسے عالمی طاقت کو چنوتی دی ہے۔

ایک ایسا فوجی اڈا جہاں پر ہزاروں افسران اور فوجی ہوتے ہیں جو ایران سے سینکڑوں میل دور ہے کو نشانہ بنانا اور جان بوجھ کر کسی انسانی جان کو نہ لینا ان کے اپنے تیار کردہ مزائیلوں پر ناقابل شک خوداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔عراق میں موجود امریکہ کے طاقتور فوجی اڈے کو نشانہ بنانے کی تکنیکی قابلیت اور طاقت ثابت ہوچکی ہے اور اس نے امریکی اہلکاروں کو ہلاک نہ کرکے دوسری بار رحمدلی دکھائی ہے۔

ENybudWWoAMdbEF

پہلی بار یہ رحمدلی جون 2019ء میں دکھائی جب اس نے 38 امریکی افسران کو لیجانے والے جاسوس طیارے کو تباہ نہ کیا جو ایرانی فضا کی خلاف ورزی کررہا تھا اس وقت جب سمندر میں ٹينکروں کی جنگ جاری تھی- دو‎ری بار اس وقت جب ایران نے اپنی مرضی سے امریکی فزجی اڈے میں انسانی جانوں کو نشانہ نہ بنایا جہاں پر ہزاروں برطانوی، کینڈين ، نارویجئین ، بیلجئین اور ڈچ فوجی افسران تھے- ایران نے خاص فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا- جبکہ امریکہ نے ڈرون حملے میں تین انسانی جانوں کو نشانہ بنایا تھا

ایرانیوں نے عین الاسد فوجی اڈے کو نشانہ بناکر امریکہ کے نصب کردہ سب سے جدید ریڈار اور مزائل حملے روکنے والے آلات کی کمزوری کو بھی آشکار کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کئی بار ان آلات کو دنیا میں سب سے بہترین قرار دیا تھا۔ لیکن امریکہ کا عراق-امریکہ فوجی اڈے انبار پر نصب دفاعی سسٹم ایران کے داغے گئے 13 بیلیسٹک مزائیلوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس واحد ایرانی جارحانہ اقدام کے نتائج امریکی اسلحہ انڈسٹری اور امریکہ کی مڈل ایسٹ میں خارجہ پالیسی کے لیس تباہ کن ہوں گے۔

مزائیل حملے نے امریکہ کے خطے میں اتحادیوں کو دکھایا ہے کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے جو امریکی ہتھیار انھوں نے لیے وہ ایران کے خلاف ان کا دفاع کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے ہیں- یہ ممالک اب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ایرانی حملے کا کوئی توڑ موجود نہیں ہے۔ یہ ادراک مڈل ایسٹ کے ممالک کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تہران سے بات چیت کرنے اور اسلامی جمہوریہ سے اچھے تعلقات بنانے کے راستے پر لیجائے گا- یہ بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ یہ ممالک ایرانی مزائیلوں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے ان کو خریدنے کی طرف لیجائیں جو امریکی بیلسٹک موائیلوں سے کہیں کم قیمت پر دستیاب ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک اور غلط اشارہ دیا ہے جب اس نے اعلان کیا: ” امریکہ کو مڈل ایسٹ کے تیل کی ضرورت نہیں ہے۔” یہ بیان مڈل ایسٹ کے رہنماؤں نے امریکہ کی طرف سے اس خطے کے دفاع کے ماضی میں رہی سب سے بڑی ضرورت کے نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے یہ تاثر بھی گیا ہے کہ امریکہ کے اس خطے میں مفادات میں کمی آئی ہے جبکہ مڈل ایسٹ کے کئی ممالک کا سارا انحصار تیل کی دولت پر ہے۔

EN18_3MXsAE3eYs

یہ بیان ہماری توجہ ایک اور اہم نکتہ کی جانب کرتا ہے: ٹرمپ کی ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی دھمکی- عین الاسد فوجی اڈے پر حملے کے بعد، یہ بات بہت صاف ہے کہ امریکہ ایران میں کسی قسم کے حملے میں ملوث ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکہ کے پاس تباہ کن فوجی اہلیت ہے تو ایران کے پاس بھی ہے۔ ایرانی حملے سے لیا گیا سبق یہ ہے کہ ایران بھی ٹھیک ٹھیک امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ایک دم تیار ہے۔ اس لیے ایران پر بم برسانے کا ایجنڈا تو ٹیبل پر ہے نہیں۔ تہران اس لیے اس علاقے میں نئی پیش رفت کا اعلان کرے گا جس وقت اگلے اپریل میں امریکہ کی طرف سے عراق سے چلے جانے کے عہد کے پورا ہونے کا وقت آئے گا۔

ایران کے پاس کوئی اور راستا نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے کے معاہدے سے باہر آئے جبکہ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے مغربی ممالک اپنے وعدے پورے نہیں کرپائے اور ایران کے سامنے کوئی متابدل بھی پیش نہیں کرسکے۔ نہ ہی ان ممالک نے ٹرمپ کی جانت سے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جانے کے اعلان کے بعد اس اعلان کے خلاف کوئی مزاحمت کی- ایران کی طرف سے ایسا اعلان ٹرمپ کی آنے والی انتخابی مہم کے لیے ایک تحفہ ثابت ہوسکتی ہے جو ٹرمپ کے مخالفین کو اس کے خلاف موثر پروپیگنڈے کا ہتھیار تھما دے گی

ٹرمپ نے اپنے اقتدار میں ہر وہ چیز کی ہے جس نے ایران کے کی قیادت کے پیچھے ایران کو کھڑا کردیا ہے جیسے ایرانی عوام پر اقتصادی پابندیاں اور ان کے جنرل کا قتل۔ ایران نے امریکی پابندیوں کو مہارت سے اپنے فائدے میں استعمال کیا جب اس نے خلیج فارس میں ھرمز کی پٹی پر تیل بردار جہازوں پر حملے کیے اس سے ایرانی رجیم کی حمایت میں اضافہ ہوا اور قوم پرستانہ جذبات بڑھ گئے۔ جنرل قاسم سلیمانی کا امریکیوں کی جانب سے قتل لاکھوں ایرانیوں کو سڑکوں پر لے آیا اور ایرانیوں کو ایک جھنڈے تلے متحد کردیا- ایرانیوں کو لگا کہ ان کی عظمت رفتہ لوٹ آئی ہے، ان کی طاقت اور خودمختاری کو وقار ملا ہے۔ صرف ٹرمپ ہی ایسا اہم ترین ہدف ایرانی رجیم کو ٹھیک وقت اور ٹھیک لمحے میں حاصل کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔

ٹرمپ کا نیٹو کو مڈل ایسٹ میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو کہنے کا مطلب خطے میں امریکی بالادستی کا بہت سنجیدہ زوال لیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے ایسا کرکے مڈل ایسٹ کے معاملات سے نبٹنے سے ناہلی یا غیر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے اس کے مشیروں کی نااہلیت ظاہر ہوتی ہے یا امریکہ کی طرف سے اس علاقے سے اپنا اثر ختم کرنے کا سٹرٹیجک فیصلہ-

ایران نے ایک ایسے مرحلے پر بطور علاقائی قوت کے اپنے آپ کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے مشکل ترین حالات میں بھی امریکہ کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پر امریکی پابندیوں کے چالیس سالہ دور ٹرمپ کے مکمل قوت سے ان پابندیوں پر عمل درآمد کا مقصد مکمل تباہی پھیلانا تھا- اگر اعلان ان سالوں میں ان پابندیوں کے زیر اثر نہ ہوتا تو جو بہتر نتائج یہ دے سکتا تھا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

ENoilSEXYAIOQtR

امریکہ کا سب سے بنیادی اور پہلا اتحادی اسرائیل ان سارے واقعات کو مکمل توجہ سے دیکھ رہا ہے- ایران کی امریکہ یا اسرائیل پر حملہ کی دھمکی حقیقی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان سارے سالوں میں ایران نے ان مزائیلوں کو پورے مڈل ایسٹ میں اپنے اتحادیوں کو فراہم کیا ہے بلکہ ایران نے اپنی اہلیت کو سب سے زیادہ پیچیدہ اور مربوط حملوں کے دوران سعودی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بناکر اسے ثابت بھی کر دکھایا ہے۔ سینکڑوں میل کے فاصلے سے ڈرونز اور مزائیل جو داغے گئےانھوں نے اپنے ٹھیک ہدف کو چھوا۔ ایسے ہی ایک حملے کا دعوی یمن نے کیا، جو مڈل ایسٹ میں سب سے غریب ترین ملک ہے

اس ملک کو بھي ایرانی مزائیلوں اور ہتھیاروں کی سپلائی ابھی شروع ہوئی ہے اور اس نے جواب دینا شروع کردیا ہے- حزب اللہ کے بارے میں جو ہے کہ وہ پوری طرح مسلح ہے اور انتہائی اعلا سطح کی تربیت یافتہ ہے جس کے پاس 38 سال کا تجربہ ہے اور وہ اب بھی نان اسٹیٹ ایکٹر ہے۔ حزب اللہ نے ایران سے ٹھیک ہدف پر نشانہ لگانے والے مزائیل ایران سے لیے ان کو شامی-لبنانی سرحد پر پہاڑیوں کے نیچے بنکر بناکر نصب کیا- ایران کا عراق میں امریکی غلبے پر مبنی فوجی اڈے کو نشانہ بنانے نے اسرائیل- حزب اللہ ممکنہ جنگ کا امکان ختم کردیا ہے- اسرائیل دیکھ سکتا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی کس قابل ہیں- اسے فلسطینیوں کو اب پہلے سے مختلف انداز میں لینے کی ضرورت ہے۔

امریکی صدر جنھوں نے ‘نہ ختم ہونے والی جنگوں” کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا انھوں نے عراقی کماندر المہندس اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل اس زعم میں کیا تھا کہ اس سے ایک طرف تو وہ عراق کا پورا کنٹرول سنبھال لیں گے اور دوسرا ایرانی رجیم کو نکال باہر پھینکنے میں کامیاب ہوجائیں گے- ایک بڑی جنگ کے دھانے پر پہنچ کر ٹرمپ نے نہ صرف ایران کو کھوایا بلکہ اب وہ عراق بھی کھونے کو ہے۔

ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا ہے،’ خوبصورت فوجی آلات دنیا پر حکمرانی نہیں کرتے بلکہ عوام دنیا پر حاکم ہوتے ہیں- اور عوام امریکہ کو اس خطے سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔” مڈل ایسٹ میں ٹرمپ کی طرف زیادہ لوگ نہیں ہے۔ بلکہ عوام تو زیادہ اس کے اتحادیوں کے ساتھ بھی نہیں ہیں جن کے رہنماؤں نے ان کی بار بار توہین کروائی ہے۔ایران کبھی خواب میں بھی ایسا بہترین صدر نہیں پاسکتا تھا جو اس کی مقامی اور علاقائی پوزیشن کو نئی توانائی بخشنے کے کام آیا ہو- ایران کے ااتحادی شاداں و فرداں ہیں اسلامی جمہوریہ کے پیچھے کھڑے ہیں جس نے امریکہ پر حملے کا وعدہ پورا کردکھایا ہے۔ ایک نیا مشرق وسطی کا جنم ہونے کو ہے۔ لیکن اس کا خالق امریکہ نہیں بلکہ ایران ہے۔ آئیں امید کریں ‘جنگ پھیلانے’ والوں کا دور ختم ہوچکا ہے- وقت آچکا ہے کہ دنیا کے امور میں ذہین ڈپلومیسی پر ہی اعتماد کیا جائے۔

(مترجم: عامر حسینی)

عالیجاہ مغنیرعراقی صحافی اور مڈل ایسٹ میں دفاعی و سیکورٹی امور پر رپورٹنگ و تجزیہ نگآری کرتے ہیں