امریکا کا عراق کو پیام : ہم عراق سے جاینگے لیکن ذلّت کے ساتھ نہیں


مصنف: ایلایجا مگنایر

مترجم: میثم جعفری

  عراقی  وزیر ا عظم  مصطفیٰ  ال  کا ظمی  وہائٹ ​​ ہاؤس  میں  امریکی  صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لئے تیاری کر رہے ہیں ، اپنے ساتھ وہ فائلیں بھی لے جا رہے ہیں جو عراق کے اپر بوجھ بن رہی ہیں ۔ بیشک اس وقت ملک بہت ہی سخت بوحرانوں سے گزر رہا ہے جیسے ، اقتصادی مشکلات ،کورونا وائرس وبائی ، امریکی فوج کی موجودگی جو اب مطلوبہ نہیں ہے ، ایران اور امریکہ کا غیر منظم توازن اورترکی کی تمام تر فوجی سرگرمی اور ملک کے کچھ حصّوں پر قبضہ –

  ال کاظمی کی  ٹیم میں اقتصادی ماہرین اور سفارت کار شامل ہیں جن کا مقصد گذشتہ جون میں دونوں ممالک کے مابین  شروع ہوئے  اسٹریٹجک  مذاکرات  ک ے دوسرے  دور  کو  آگے  بڑھنا  ہے۔ یہ مذاکرات عراق سے امریکی فوج کی دستبرداری کے سلسلے می ہونی ہے جسکا فیصلہ عراقی پارلیمنٹ نے اس سال جنوری میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر – میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد لیا تھا –

متعدد نا معلوم گرہوں نے شدید زخم پہچانے کی نیت کے بنا ، کٹیوشا راکٹ اور مارٹر گولوں  سے امریکی اڈوں پر حملہ کیا – مزید یہ کہ جو عراقی قافلے امریکی افواج سے وابستہ سامان لے جاتے ہیں ان کو روکا گیا اور مواد کو نذر آتش کردیا گیا اور ساتھ ہی عراقی ڈرائیوروں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ امریکی افواج کو کسی قسم کی خدمات فراہم کرنے سے گریز کریں ورنہ انکو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے

   اب تک ان نامعلوم گروہوں نے ایک مشترکہ مقصد تشکیل دیا جو امریکی افواج کو متنبہ کرتا  ہے کہ عراق میں ان کی موجودگی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پارلیمنٹ کی درخواست کے مطابق دستبردار نہ ہوں۔۔  لہذا ، متوقع  ہے کہ یہ  گروہ الکاظمی کی حکومت اور واشنگٹن پر دونوں پر مزید دباؤ ڈالنے کے لئے  اپنے حملوں میں شدت پیدا کر رہے ہیں تاکہ انہیں احساس ہو کہ پرتشدد تصادم اب زیادہ  دور نہیں ہے۔

 ایران متعدد بار عراق اور ان عراقیوں کی مدد کرنے کی نیت ظاہر کر چکا ہے جو امریکا کو عراق اور مشرق وسطی سے باہر نکالنا چاہتے ہیں – جب کاظمی نے پچھلے مہینے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی عہدیداروں سے ملاقات کی تو ، رہبر انقلاب اسلامی ، سید علی خامنہ ای نے ان سے کہا: “امریکہ نے آپ کے مہمان کو مار ڈالا ہے۔” اس طرح سید خامنہ ای عرب قبائلی جذبات کو بیدار کرنا چاہتے تھے جو مہمان کی تقدیس اور حفاظت کرتے ہیں، اور ساتھ ہی عراقی عہدیدار کو یہ  بتانا چاہتے تھے  کہ آپ نے اپنے مہمان کو مارنے والوں سے  بدلہ لینے کے لئے کچھ نہیں کیا ، اور اگر عراقیوں نے قاتلوں کے خلاف بغاوت کی ، تو یہ ان کا حق ہے۔

اس طرح عراقی وزیر اعظم جو امریکہ اور ایران کے مابین مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، دونوں ممالک کے عہدیداروں سے ملاقات کے لئے ثالثی نہیں کررہے ہیں ، کیونکہ ایران موجودہ امریکی انتظامیہ یعنی کہ  میجر جنرل سلیمانی کے قاتلوں کے ساتھ کوئی بھی مذاکرات  ہونے سے انکار کرتا ہے۔ کاظمی اس خطّے اوربلخصوص عراق میں کسی بھی  فوجی تصادم سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ان کے تہران اور واشنگٹن کے مابین کی کوششوں میں کامیابی کے امکانات تب تک کمزور ہیں جب تک ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں موجود ہے۔

ایک اور بڑا خطرہ جسکا کاظمی سامنا کر رہے ہیں وہ عراق میں ترکی کی غیر قانونی موجودگی ہے۔ کئی سالوں سے ، ترک فوج عراقی کردستان کے بشیقہ علاقے  میں ہے ،اور اسکو جلدی چھوڑ کے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔  اس کے نتیجے میں ، ترکی نے عراقی سرزمین پر١٥  سے زیادہ مستقل فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ بات  بغداد حکومت کو تشویش میں مبتلا کرتی  ہے ، خاص طور پر ترک سیاست دان کے بار بار اس اعلان کے بعد کہ “موصل ٨٢ واں ترک صوبہ ہے۔” اس سے توسیع پسندانہ عزائم کا پتہ چلتا ہے ، کیونکہ ترکی موصل کو سلطنت عثمانیہ کا حصہ سمجھتا ہے اور اس لئے اسے اپنے سابقہ ​​مالک کے پاس بحال کرنا چاہتا ہے ۔ لہذا ، ترکی کے لئے ٢٠١٤ میں موصل شہر میں قونصل خانے میں اپنے سفارتکاروں کو رکھنا بھی عجیب نہیں ہے یہاں تک کہ جب داعش نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔

عراقی کرد تیل ترکی کے راستے برآمد کیا جاتا ہے جو عراق میں معاشی ، فوجی اور مالی اثر و رسوخ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ مزید برآں ، یہ دجلہ اور دریائے فرات (جو شام سے ہوتا ہوا  عراق جاتا ہے) میں بہتا ہوا پانی کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اوراس  پانی کی مقدار پر  کنٹرول ہے جس پر عراق کا زرعی شعبہ ٨٠ فیصد منحصر ہے۔

  ترکی نے حال ہی میں عراق سے ١٤٠ کلومیٹر دور واقع الیسو ڈیم تعمیر کیا ہے ، جسکو لیکر  بغدادی حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انقرہ اس ڈیم کو دریائے دجلہ پر عراق کے خلاف  ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے ۔ در حقیقت ، دجلہ دریا کے لئے پانی کی درآمد میں تقریبا ٦٠ فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جو دریا کے کنارے رہنے  والے تمام باشندوں کے اپر اثر دالیگا۔ یہ ٥ عراقی صوبے ، ١٣ اضلاع ، اور ٢١ ذیلی اضلاع ہیں۔ اس سے کسانوں کو پانی کی فراہمی کی کمی کی وجہ سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑیگا ، جس سے آنے والے سالوں میں چالیس لاکھ ہیکٹر زمین کا نقصان ہوگا۔

  اس کے علاوہ ، گذشتہ ہفتے ، ترکی کے ڈرون طیاروں نے دو سینئر عراقی افسران اور ان کے ڈرائیور کو اس وقت ہلاک کردیا جب وہ ترک ایران سرحد کے قریب پی کے کے عسکریت پسندوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس حادثے کے بعد بغداد کی طرف سے ترک سفیر کو طلب کیا گیا  اور عراق سے مکمل انخلا کے مطالبے پر زور دیا گیا۔ 

کاظمی عراقی ترک تعلقات کو اپنے ساتھ واشنگٹن لے کر جائیں گے اور پر زور طور پر اٹھانے کی کوشش کرینگے لیکن اسکی امید بہت کم حیا کے امریکا انکی بات کو سنے ،کیونکی  ترکی نیٹو کا ایک سرگرم اور اہم رکن ہے ، خاص طور پر جب عراق امریکہ سے انخلا کا مطالبہ کرتا ہے۔ مزید برآں ، امریکی انتظامیہ کو اس بات سے زیادہ تشویش ہے کہ عراقی وزیر اعظم امریکی افواج کی حفاظت کے لئے کیا کریں گے جب تک کہ ان کی رخصتی نہ ہو – اور پاپولر موبلائزیشن فورسز کا خاتمہ کریں ، جس میں متعدد قوتیں بھی شامل ہیں جو ایران کے لئے وفادار ہیں۔

تاہم ، کاظمی نے پی ایم ایف کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اس میں موجود تمام مختلف بریگیڈوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کوختم نہیں کریں گے۔ پی ایم ایف اس وقت قائم ہوا تھا جب داعش نے ٢٠١٤ میں عراق پر قبضہ کیا تھا اور عراقی عہدیداروں کے خیال میں پی ایم ایف کی  کم از کم اس وقت تک ضرورت ہے جب تک داعش کا خطرہ عراق کی گردن پر لٹکا ہوا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کاظمی پی ایم ایف کی کچھ افواج کی کارکردگی کے بارے میں شکایت نہیں کرتے ہیں اور اسی وقت ، پی ایم ایف میں سب سے بڑے نظم و ضبط گروپوں پر عراق کی حفاظت کے لئے منحصر ہیں۔ کاظمی نے کہا کہ انہیں پی ایم ایف کی ضرورت ہے کہ وہ داعش سے لڑیں ، شام کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کریں ، اور ریاست کے دشمنوں کو قابو میں رکھیں  اور ساتھ ہی داخلی دشمنوں  کے عزائم کو بھی ختم کریں جو عراق کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن علیحدگی کے مواقع کے منتظر ہیں۔

بلاشبہ ، کاظمی کا ایک بڑھتا ہوا سیاسی مستقبل ہے کیونکہ وہ عوام اور ان کے مطالبات کو سنتے ہیں اور ان کا تعلق حکمران سیاسی طبقے سے نہیں ہے جو عراق پر گرفت رکھتے ہیں ، اور ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اصلاحات اور تبدیلی پر اصرار کرتے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ کاظمی ایک اہم سیاسی قوت تیار کریں گے جو آئندہ ابتدائی انتخابات کے ذریعے تیار کی جائے گی ، جس کی تاریخ کا اعلان آج سے ایک سال بعد کے لئے ہو گیا ، تاکہ عام عوام کی بات کو سنا جا سکے اور انکی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم ، اس کے چیلنج اب بھی متعدد اور پیچیدہ ہیں ، اور عراقی معاشی صورتحال قابل رشک نہیں ہے ، جیسا کہ اس کی علاقائی صورتحال بھی ہے ، جو تنازعات کے ساتھ ایک علاقائی دوراہے پر واقع ہے۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کے دوبارہ انتخابات یا کسی اور صدر کے انتخاب کا تعلق ہے ، وہ عراق کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تصادم کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرے گا اور کاظمی کو آئندہ کے لئے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ امریکہ مشرق وسطی کے اس اہم حصے میں اپنی موجودگی کھونا نہیں چاہتا ہے اور چیلنجوں سے قطع نظر اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ اس کے نتیجے میں ، عراق وائٹ ہاؤس میں ہونے والی مذاکرات کے نتیجوں کا انتظار کرے گا تاکہ وہ مستقبل میں ایرانی امریکی تعلقات کی نوعیت کا اندازہ لگا سکے اگر وہ مزید تناؤ کی طرف بڑھتا ہیں تو یہ بنا کسی شک و شبہ کے عراق کے لئے بڑا خطرہ ہوگا ۔

Advertisements
Advertisements
Advertisements